یہ شعر مرےذات کی تفسیر بن گئے
ہر لمحہ تیرےپیار کی تصویر بن گئے
میں کیا کروں میرا مقدرنہ بنے تم
یہ کم ہے کہ اور کی تقدیر بن گئے
دولت کے ترازو میں تولہ گیا ہمیں
انسان نہ ہوئےہم جاگیر بن گئے
چاہا جسے ہم نے خود سے بھی بڑھ کر
وہ اور کے خواب کی تعبیر بن گئے
رکھا تھا جنہیں ہم نے کبھی سب سے چھپا کر
ڈھل کر میرے لفظوں میں تحریر بن گئے
اک طرف کھڑے ہو کر ہم دیکھتے رہے
اس شخص کو جو محفل کی تنویر بن گئے
وہ چھوڑ گیا ہم کو اس راہ گذر پہ
اک بے نشان منزل کے ہم راہگیر بن گئے
جب بھی سراہا ہمیں نظروں میں سراہا
ہم تیری اک نگاہ کا اسیر بن گئے
میں سوچتی ہی رہ گئی بدلنے کو راستہ
تم بارہا ہی پیر کا زنجیر بن گئے