میری خوشیوں میری کا سامان ہے ماں
میرے لبوں کی کھلتی مسکان ہے ماں
خود دھوپ میں جلے مجھے رکھے اپنی پرچھائ تلے
میرے لیے تو آٹھواں آسمان ہے ماں
مجھ کو نہیں ہے طلب کسی جنت کی
میری جنت میری راحت میرا گلستان ہے ماں
مجھ کو نہ جلا سکے گی پرخطر راہوں کی تپش
میرے سر پہ رحمتوں کا سائبان ہے ماں
اک معصوم مسکراہٹ سے ڈال دیا اپنے غموں پر پردہ
میں نے جب بھی پوچھا کیوں پریشان ہے ماں
منزل کے خطرات بھی دور بھاگتے ہیں اس سے
جس شخص کے سنگ دعاؤں کی حفظان ہے ماں
ماں مجھ سے کہتی ہے میری جان ہے تو
امتیاز میں یہ کہتا ہوں میری جان ہے ماں