میری خوابیدہ امیدوں کو جگایا کیوں تھا
دل جلانا تھا تو پھر دل لگایا کیوں تھا
مجھے گرانا تھا اپنی نظروں سے اس طرح
تو میرے عشق کو سینے سے لگایا کیوں تھا
عمر بھر پاس نہ آنے کا ارادہ تھا اگر
پھر مجھے اپنے عشق میں دیوانہ بنایا کیوں تھا
یاس کی نیند سلانا تھا اگر مجھ کو
میری امید کی راتوں کو جگایا کیوں تھا
ولولہ اپنی محبت کا اگر تم نے گھٹانا تھا
حوصلہ میری امید کا تم نے بڑھایاکیوں تھا
لب پر مہر سکوت اگر لگانی تھی اس طرح
مجھے نغمہء امید تم نے سنایا کیوں تھا
بادہءعشق میں تلخی ہی سہی زاہد
پہلے اس جام کو ہونٹوں سے لگایا کیوں تھا