میری زندگی میں بڑھ کر بھلا تم سے خاص کیا ہے
سبھی چھین کر کے مجھ سے تجھے اور آس کیا ہے
یہی عشق کا ہے حاصل جو انعام تو نے بخشا
اک روگ کے سوا بس میری میراث کیا ہے
میری ساری زندگانی اسی کشمکش میں گزری
تیرے غم بانٹنے میں میری نشاط کیا ہے
نہ کہوں گا میں کسی سے میرے درد کا فسانہ
بس وہی جانتا ہے غم کی اساس کیا ہے
میری وحشتوں سنو کہ یہ پیام آخری بس
سب کچھ تو دے دیا ہے ، اب میرے پاس کیا ہے