کچھ تو ہوا بھی سرد تھی اور کچھ تھا تیرا خیال بھی
دل کو خوشی کے ساتھ ساتھ ہوتا رہا ملال بھی
سب سے نظر بچا کے وہ مجھے کچھ ایسے دیکھنا
اک دفعہ تو رک گئی گردش ماہ و سال بھی
اس کو نہ پا سکے تھے جب تو دل کا عجب حال تھا
اب جو مڑ کر دیکھے بات تھی کچھ محال بھی
میری طلب تھا ایک شخص وہ جو نہیں ملا تو پھر
ہاتھ دعا سے یوں گرا بھول گیا سوال بھی
اس کی سخن طرازیاں میرے لئے بھی ڈھال تھیں
اس کی ہنسی میں چھپ گیا میرے غموں کا حال بھی
شام کی ناسمجھ ہوا پوچھ رہی ہے اک پتہ
اے موج ہوائے کوئے یار کچھ تو میرا خیال بھی