اک شجر سایہ دار آج سوکھ گیا
جب زمین کا رزق بند ہوا
میری ماں ٹھنڈی چھاؤں تھی
اب دھوپ سے میرا بدن جل گیا
ندا آئی کہ اب گناہ نہ کرنا کبھی
در توبہ آج میں نے بند کیا
لاکھوں ستارے ھیں آسماں پر
تیری قسمت کا ستارہ مگر ٹوٹ گیا
در جنت تھا اس کے قدموں تلے
زھے قسمت جو کوئی گزر گیا