نجانے کتنی باتیں میں سوچتا جہاں تھا
نجانے کتنے چہرے میں کھوجتا جہاں تھا
کتنے حسین چہرے آنکھوں میں ٹہرتے تھے
کتنے حسین لمحے پل بھر بدلتے تھے
کچھ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ لوگ جھگڑتے تھے
خود ہی وہ بگڑتے تھے خود ہی وہ سنبھلتے تھے
معصوم سے وہ بچے معصوم مسکراہٹ
پھولوں کی طرح کھلتے خوشیوں سے اچھلتے تھے
ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے دو پیار کرنے والے
ہر روز ہی ملتے تھے ہر روز بچھڑتے تھے
تھامے کتاب ہاتھوں میں چہرہ بھی کتابی
گھر سے نکلتی جب وہ دل سب کے دھڑکتے تھے
احسن بہت ستائے اب یاد بہت آئے
میری گلی کا نکڑ میری گلی کا نکڑ