میری ہی کہانی مجھے سنا رہا تھا کوئی
اپنے لفظوں میں میری ہی بات مجھے بتا رہا تھا کوئی
کیسے کٹتی ہے کسی کی جدائی میں شام
اداس شاموں کے سناٹتے سے گھبرا رہا تھا کوئی
بہت پاس سے بچھڑا ہیں اک ساتھی
جس کے لیے دل کھول کے لیے آنسو بہا رہا تھا کوئی
کیوں نا آیا اب تک ُاسے خیال میرا
جب کے ُاس کے خیال میں مرتا جا رہا تھا کوئی
ترس گئے میرے کان ُاس کی آواز سننے کو
اور وہ محفلوں میں جا کر اورو کو راگ سنا رہا تھا کوئی
آگئے کا کم تھے تقدیر کے ظلم مجھ پر
جو اب زمانے سے مل کر مجھ پے ظلم کر رہا تھا کوئی