پیاس کا آج تماشا ہے اگر گاؤں میں
میرے آنسو بھی تو گرتے رہے صحراؤں میں
اڑ کے خوشبو کو میں چوموں گی یوں تتلی بن کر
پیار کے پھول بچھا دو نا کبھی پاؤں میں
جس طرح پیڑ کے سائے میں ملے چین و قرار
زندگی میں بھی گزاروں گی تری چھاؤں میں
نقشِ پا سوزِ نہانی ہے مری آج حیات
کرب کا رنگ ہی شامل رہا آشاؤں میں
سرخ گجروں کی تمنا میں تہہِ خاک ہوئے
جتنے آنسو تھے مری آنکھ کے دریاؤں میں
شامِ ہجراں کا سفر کیسے میں کاٹوں وشمہ
عشق کے آج بھی چھالے ہیں مرے پاؤں میں