رات پھر عجیب خواب تھے
خواب میں بھی سراب تھے
سب اداس اداس چہرے تھے
جیسے حسین کی پیاس تھے
ہر قدم پر سوال ہی سوال تھے
سوال کیا تھے حقیتاً وبال تھے
میں کیسے سراب سے خواب تک آتا
میں کیسے کسی سے خود کو بچاتا
عجب تعلق داریاں نبہا رہے تھے
میرے اپنے مجھے زندہ دفنا رہے تھے
بھاگ رہا تھا، ہانپ رہا تھا خالد
پیروں سے لپٹے سارے احباب تھے