اے ہمسفر تیرے اک انکار پے یک لخت
میرے جذبات کچھ ارمان, ہزاروں خواب ٹوٹ گئے
تم نے دنیا کے ہوالے کر دیا تھا نہ
پھر مت پوچھوں کس کس طرح کے الفاظ مجھ پے ٹوٹ گئے
جو آنسوؤں کا سمندر بھیگو نا سکا تیرے دل کو
پھر کانچ کی طرح وہ آنسو جانماز پے ٹوٹ گئے
تیری نظر میں جو کچھ نہیں - پر لگ گیا اک داغ تھا
پھر میرے زرد چہرے کو دیکھ کر میرے احباب ٹوٹ گئے
تجھے نظر نا آیا وہ ستارہ جو بھجا نہیں تھا کبھی
میرے بند کمرے کہ اندھیرے کو دیکھ کر زمیں آسمان ٹوٹ گئے
نجانے میرے قدم کس مسافیت پے چل پڑے ہیں لکی
کہ قدم قدم پے یوہی میری خواہشیں کے محل ٹوٹ گئے