میرے حصے میں جو غم تھے کیا وہ کم تھے
تو میرا تھا پھر کیوں جام بے خائنانه دے گیا
چشم اشک ریختن ہیں بس تیرے نام کے صاحب
زندگی بھر کی کھا کے قسمیں وہ رسوائی دے گیا
زندگی ٹوٹ کے گِر گئی میرے ہاتھ سے صورت زیبا
ہوش کھوئے تھے وارکرفت میں وہ سَم دے گیا
راس آئی نہ مجھے میری هویت تیرے نام سے
ہوا یوں کے میرا صبر میری آغوش میں دم دے گیا
ہے قلب شُکر گزار تہہ قلب سے اے مُصور تیرا
تو چلتے پھرتے اک شخص کو لاش کی صورت دے گیا
وقت کی جایگزینیاں نہ بدل سکیں میری حالتِ افسردگی
بھولتا ہوں اُسے یاد آتا ہے نفیس جو عنایتِ ستم دے گیا !!