میرے خواب تھے کچھ
دل میں جذب ارمان تھے کچھ
تم سن کر بھی نا سن سکے مگر
میری دھڑکنوں کے ساز تھے کچھ
زمانے کی فکر تو انسان کو ہوتی ہے
ہم تو عشق میں تمہارے غلام تھے کچھ
ہم شہر میں آباد ہو نا سکے لکی
اور کھنڈروں میں آباد گلاب تھے کچھ
جنہیں بوایئں نجانے کہاں ُاڑا کے لے گئی
وہی پرندے پرواز سے انجان تھے کچھ
بچھڑیئں تو پھر تم نے کہیں ڈھونڈا ہی نہیں
وہی شخص شہر میں نایاب تھے کچھ
دعاؤں کا سودا کیا خوب دولت سے کیا مگر
میرے اک دل کے سامنے تم غریب تھے کچھ