مرے دل میں رہتا تھا غم ، اب نہیں ہے
جو رہتی تھی یہ آنکھ نم ، اب نہیں ہے
میرے کام آیا ہے میرا تحمل
عُدُو میں جو پہلے تھا دم ، اب نہیں ہے
صنم اب صنم وہ نہیں ولہ اعلم
کہ پہلے سا لطف وکرم، اب نہیں ہے
سُنا تھا کہ گلشن میں رنگینیاں ہیں
وہاں جا کے دیکھ آئے ہم ، اب نہیں ہے
سِھی اپنے اپنے مسائل میں گُم ہیں
کسی کا کسی کو بھی غم، اب نہیں ہے
نوید ان جفاؤں نے سوچوں کو بدلا
جو پہلے تھا ان پہ بھرم اب نہیں ہے