وہ چاہت ہی کیا جو جُمبش ِ اَبرُو کو نہ سمجھے
سر ِ محفل وہ میرے دل کے لہو کہ نہ سمجھے
محبت کے سفر میں وہ تنہا کر گئے پھر سے
بڑی ہی بھول کی ہم نے پُرانی خُو کو نہ سمجھے
گُل رہتا تروتازہ کیسے شاخوں سے جُدا ہو کر
اہلِ گُلشن ہی اُسکے رنگ و بُو کو نہ سمجھے
یہ کہنا کیا ضروری ہے کہ وفا کا پاس کرتےہیں
میرے عزیز میرے تیور کی گُفتگو کو نہ سمجھے
وقت ِ رخصت میرے تبسم سے خفا تو رضا تھے
ٹھہرے ہوئے میری پلکوں پہ اِک آنسو کو نہ سمجھے