میرے رفیق مجھے کوئی کہانی دیدے
جس سے دل بہلتا رہے وہ نشانی دیدے
میری حیات کا سکون توڑ کے رکھ دے
ٹھہرے ہوئے طوفان کو روانی دیدے
میرے اعصاب شکستہ میرا وجود بے اماں
میری اجل سے پہلے مجھ کو جوانی دیدے
جو تیرے سوا کسی اور کو نہ پہچانے
میرے مسیحا مجھے ایسی دیوانی دیدے
میری ناؤ بھنور کو چھو کے ساحل سے آ لگے
کچھ ایسا کر دکھا جو سب کو حیرانی دے دے