میرے ساتھ چلتے چلتے گھبرا تو نہیں گیا
کہیں میرے خلاف کوئی بہکا تو نہیں گیا
شہرمیں ہر شخص کیوں اداس نظر آتا ہے
کہیں وہ شخص شہر سے چلا تو نہیں گیا
روشنی کیسی ہوگئی ہے بستی میں اچانک
کہیں وہ اپنے ہی گھرکو جلا تو نہیں گیا
لوگوں نے ابتو میرے پاس آنا ہی چھوڑدیا
کہِیں چراغ میری قبر کے بجھا تو نہیں گیا
ڈھونڈ رہی ہیں مقتل میں مائیں بچوں کو
کہیں نشان لاشوں کے قاتل مٹا تو نہیں گیا
سرگوشیاں کررہے ہیں گریباں چاک ہموطن
کہیں اس گلشن کو مالی ہی لٹا تو نہیں گیا
دھواں جو اٹھ رہا ہے زمیں سے آسماں تک
کہیں جاتے جاتے وہ بجلیاں گراتو نہیں گیا