ایک جام ایسا میرے ساقی ! عنایت کرنا
مجھ کو ہے اور ابھی ماتم حسرت کرنا
مثل حاتم کبھی ایسی بھی سخاوت کرنا
تم ذرا اور بھی افزوں غم فرقت کرنا
در زنداں ہے، میرا سر ہے، جنوں خیزی ہے
پھر بیاں مجھ سے بہاروں کی حکایت کرنا
ان کی تصویر نگاہوں میں بسائے پھرنا
رات دن انکی تمنائے زیارت کرنا
غنچئہ شوق کو آتا ہے لہو کرنا انہیں
دل کی میت پہ بپا جشن مسرت کرنا
ابھی باقی ہیں کئی تار گریباں میں میرے
ابھی زیبا ہے یہ ہنگامئہ وحشت کرنا
زخم بیتاب ہیں پھر مشق ستم سہنے کو
تم ذرا آ کے مک پاشی کی زحمت کرنا
نہ تو کم ظرف ہیں ہم اور نہ ہی کج فطرت
ہمیں آتا ہے عدو سے بھی محبت کرنا
درد و آلام نے کھولی ہے میرے دل کی گرہ
غم کی رومی ! نہ مناسب ہے شکایت کرنا