ہاں یہ سچ ہے کہ کبھی ہم نے محبت کی تھی
اِک نئی دنیا بسا لینے کی چاہت کی تھی
کیسے دنیا سے مگر دونوں بغاوت کرتے ؟
اور پھر وقت نے بھی ہم سے عداوت کی تھی
اجنبی بن گئے تم ، ہو گئے پابندِ رواج
اور پھر ہم نے بھی تسلیم روائیت کی تھی
میرے شعروں،مرے گیتوں سے جھلکنے والے
تم کوئی اور نہیں میرا ہی اک سایہ ہو
جس سے پائی ہے مرے فن نے نئی ایک جلا
میری سوچوں کے خزانے کا وہ سرمایہ ہو
آج پرچھائیاں باقی ہیں فقط یادوں کی
دھڑکنیں بند ہیں سہمی ہوئی فریادوں کی
اس لئے بھی تو جدا ہوتی ہے جگ والوں سے
اِک الگ سوچ ہوا کرتی ہے بربادوں کی
ہاں یہ سچ ہے کہ کبھی ہم نے محبت کی تھی
اِک نئی دنیا بسا لینے کی چاہت کی تھی