تنہا چھوڑ دیا تم نے
پھر دھوکا دے دیا تم نے
حروف وفا کو بیوفائی کر دیا تم نے
زمانے میں اک تماشا کر دیا تم نے
کنارے کے پاس تھا وہ سیفنہ
جیسے لہروں کے ہوالے کر دیا تم نے
باغ میں وہی تو انمول تھا گلاب
جیسے کانٹوں میں تنہا کر دیا تم نے
محبت کی بھیک میں تم دے بھی کیا سکتے تھے
چلو دوستوں کو دشمن کر دیا تم نے
سرے عام محفل میں حال پوچھتے ہو
میرے اشکوں کو رسوا کر دیا تم نے
میں اپنے لہجے میں خوشی کہاں سے لاوں
میرے شعروں کو اداس کر دیا تم نے