میرے لفظ نہیں محتاج کسی صورت کے
میں لکھتا ہوں فقط حال سیرت کے
میں نے گوا دیے سبھی دوست اپنے
اب ساتھ محض لوگ ہیں ضرورت کے
سکون درکار نہیں، اپنا ہی ہوں دشمن
چاہیے لمحے وہی جو تھے مسرت کے
دل! نکالے گئے جس عمارت سے ہم
اُٹھائے ہوئے ہیں بوجھ اُسی عمارت کے
جو دن گزارے تھے تیرے ہجر میں
جان! وہ دن تھے میری شرارت کے
ہوئی مدت آنکھوں کو چمکے ہوئے
اب بخش دے تحائف زیارت کے
میسر رہے صرف مجھے سماعت تیری
ہم نہیں جائیں گے پیچھے شُہرت کے
مُصلت کیے نعمان، تم نے وہ فیصلے بھی
ہم جن پر رکھتے تھے حق مشاورت کے