دسترس میں رہا وہ میری باہر نہیں ھوا
میرے لمس کو پا کے وہ پتھر نہیں ھوا
قربت کی ساری گھڑیاں تو گزری ہیں اسطرح
کہ اک لمحہ بے خودی کا میسر نہیں ھوا
شاید یہ اسکے عشق کا دستور ہی رہا ھو
دل میں میرے سما کے وہ معتبر نہیں ھوا
تنہائی کی شام غم میں ڈوبی تھی اس طرح
کہ صبح کا وہ ستارہ پھر ظاہر نہیں ھوا
میں اسکی بے رخی اور اداؤں کا کیا کہوں
میرے ہاتھوں میں بس گیا تھا مقدر نہیں ھوا