ہرجائی نے محبتوں میں فنکاری کا ہنر رکھا
اپنی مہارتوں میں دل عزاری کا اثر رکھا
میرے دل کے سکول خانے میں اس کے عشق کا ترانہ گونجتا رہا
اپنی ہی آرزو میں خود کو نئے سروپ کا جادوگر رکھا
دیکھا نا کبھی اس نے میری نگاہوں کے سمندر میں ڈوب کر
جہاں تک میں جا نا سکی اپنی منزل کا ایسا سفر رکھا
خود کو وقت کے علم کا بادشاہ مان کر مجھ پر ہنستا رہا
میرے لیے تو اس نے خود کو اک ظالم ستم گر رکھا
میں برداشت نا کر سکی اسے رقیب کے دل میں
علم نا ہوا بے رحم نے خود کو ہر کسی کا دلبر رکھا
میری محبت کا وجود اس کے گرد گردش کرتا رہا
جس نے خود کو تمام عمر آوراگی کا رہبر رکھا
دربدر بھٹکتا رہا حسن کی تلاش میں ہر بازار
حسن پر دل ہارتا رہا حسن کا خود کو نامور سوداگر رکھا