مجھ سے اس رات کی چاھت میرے محبوب ناں مانگ
مجھ سے اس رات کی چاھت میرے محبوب ناں مانگ
میں نے جانا تھا تیرا ساتھ ہی بس جیون ھے
تیرے سنگ رھنا ھے تو پھر وصل کا جھگڑا کیا ھے
تیری آنکھوں میں صبح کے جو کھلتے ہیں گلاب
تیرے ہونٹوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ھے
تو جو مل جائے تو یہ دنیا حسیں ہو جائے
تیرے آنے سے جنت یہ زمین ہو جائے
اور بھی غم ہیں زمانے میں تیرے غم کے سوا
محبتیں اور بھی ہیں تیری محبت کے سوا
مجھ سے اس رات کی چاھت میرے محبوب نہ مانگ
وہ جو لوگوں کے چہرے پہ تھے لالچ کے نقاب
جھوٹ اور مکرو فریب میں تھے لپٹے ہوئے
بہہ رھا تھا خون سر عام سبھی بازاروں میں
جسم پہ خاک تھی اور نفرت میں تھے نہلائے ہوئے
بھٹک جاتی ھے نظر ادھر بھی مگر کیا کیجئے
اب بھی تو یاد ھے اس دل میں مگر کیا کیجئے
اور بھی غم ہیں زمانے میں تیرے غم کے سوا
محبتیں اور بھی ہیں تیری محبت کے سوا
مجھ سے اس رات کی چاھت میرے محبوب نہ مانگ
میرے محبوب نہ مانگ
ملکہ ترنم نورجہاں کی برسی پر انکو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ۔
فیض صاحب کی لکھی ہوئی غزل کے بیک راؤنڈ پہ لکھنے کی جسارت کی ھے ۔
شکریہ ۔ شبیب ہاشمی