میرے نصیب میں باقی زرا گمان بھی نہیں
اگر زمین بھی نہیں میری آسمان بھی نہیں
جسے شمار کیا کرتا تھا ستاروں مے
رہا اب اسکا تو باقی نشان بھی نہیں
تو لوٹ آ میں کرونگا گلا نہ شکوہ کچھ
جو فاصلے تھےکبھی اب وہ درمیان بھی نہیں
میں کر رہا ہوں عطا مفت مے یہ دل اپنا
عطا یہ مول کریگا تمہیں جہاں بھی نہیں
نیا نیا سا لگے ایسا کیا لکھوں اظہر
کے میرے پاس کوئی ایسی داستان بھی نہیں