میرے پیکر میں تیری ذات کی تنصیب لازم ہے
بہت بکھرا ہُوا ہوں میں، اور اب ترتیب لازم ہے
عجب وادی ہے وحشت کی، اَٹی ہے دُھول نفرت کی
گھر کو گھر بنانے کو، نئی ترکیب لازم ہے
مدھر سے راگنی گائیں، چلو کہ جام چھلکائیں
میرے گھر میں ہو آئے تم، کوئی تقریب لازم ہے
جہاں پر چار ذہنوں میں، بھرا شر ہو، کدورت ہو
تو ہو لاحق قبیلے کو، کوئی تخریب لازم ہے
میری برہم مزاجی کا، نہیں مطلب میں ایسا ہوں
وہاں میں جُھک کے مِلتا ہوں، جہاں تہذیب لازم ہے
کرو تقسیم تم حاوی، سدا خیر و محبت ہی
کہ اب اِس دَورِ نفرت میں، یہی ترغیب لازم ہے