میرے چہرے سے غم آشکارا نہیں
یہ نہ سمجھو کہ میں غم کا مارا نہیں
چشم ساقی پہ بھی حق ہمارا نہیں
اب بجز ترک مے کوئی چارا نہیں
بحر غم میں کسی کا سہارا نہیں
یہ کوئی آسماں کا ستارا نہیں
ڈوبنے کو تو ڈوبے مگر ناز ہے
اہل ساحل کو ہم نے پکارا نہیں
غنچہ و گل کو چونکا گئی ہے خزاں
فصل گل نے چمن کو سنوارا نہیں
غیر کے ساتھ کس طرح دیکھوں تجھے
اپنی قربت بھی مجھ کو گوارا نہیں
یوں دکھاتا ہے آنکھیں ہمیں باغباں
جیسے گلشن پہ کچھ حق ہمارا نہیں
ذکر ساقی ہی کافی نہیں اے فناؔ
بے پیے مے کدہ میں گزارا نہیں