Add Poetry

میرے ہمسفر

Poet: صہیب رامے By: صہیب رامے, Sadiqabad

میرے ہمسفر میری بات سن
کیا یہ ممکن ہے کہ مجھے چھوڑ آؤ
ریلوے سٹیشن کے پلیٹ فارم پر
اُسی شجر کے سامنے اُسی بینچ کی ٹیک پر
جہاں میرے سرد ہاتھوں کو تم نے
مرضی سے اپنے ہاتھ بخشے
میں نے پوچھا بھی کہ چل سکوگے
اور تم نے جنموں کے ساتھ بخشے
نہیں ممکن تو لوٹ آؤ
اپنے سرد لہجے کے بت توڑ آؤ
میرا حال پوچھو میرا ملال سمجھو
تمہیں یاد ہیں وہ خواب سارے
بھیگے رستے ہلکی بارش سرد ہوا
میں اور تم جھیل کنارے
میرے ہمسفر میری بات سن
میں کچھ نہیں ہوں بن تمہارے
یوں تنہا تنہا چلنا ٹھیک نہیں
کیا یہ وعدوں کی تضحیک نہیں
یہاں تک لا کر ہمراہ اپنے
مجھے اب چھوڑ چلے ہو
خواب سارے توڑ چلےہو
میری مانو تو ساتھ چلیں
تھام کے ہاتھوں میں ہاتھ چلیں
مل کے اپنی خوشیاں دیکھیں
تم جو چاہو میں کر ڈالوں
تم دن کہو میں دن سمجھوں
تم رات کہو میں رات مانوں
اور دوری کی کوئی گنجائش نہ ہو
پیار ہی ہو کوئی آزمائش نہ ہو
ہم اقرار کریں اظہار کریں
ہمیں پیار ہو اور پیار بھی اتنا
کسی مچھلی کو پانی جتنا
احساس بھی ہو کوئی پھولوں جیسا
میری مانو تو ساتھ چلیں
چاند کے اس پار چلیں۔

Rate it:
Views: 9
27 Jan, 2025
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets