میں زندگی کی تمنا میں مر نہیں سکتی
کہ حادثاتِ زمانہ سے ڈر نہیں سکتی
وہ فیصلہ جو مجھے آپ سے جدا کر دے
وہ فیصلہ میں کسی طور کر نہیں سکتی
ترے جمال کا چھایا ہے اس طرح جادو
مری نگاہ کسی پر ٹھہر نہیں سکتی
نجانے کیسے گذاروں گی میں اسے تنہا
وہ زندگی جو ترے بن گذر نہیں سکتی
گذارنا ہے اسے اب سنوارنا کیا ہے
یہ زندگی جو کبھی اب سنور نہیں سکتی
تری نگاہِ کرم کے بنا مرے مولا !
مری حیات کی صورت نکھر نہیں سکتی
بھرا ہی رہتا ہے پانی ہمیشہ آ نکھوں میں
ندی یہ اشکوں کی شاید اتر نہیں سکتی
رہے گی یاد تمہاری سدا مرے دل میں
غبار بن کے ہوا میں بکھر نہیں سکتی
خدا گواہ بنا تھا بوقتِ عہدِ وفا
میں اپنے عہدِ وفا سے مکر نہیں سکتی