میں آئینہ تھا وہ میرا خیال نہ رکھتی تھی
میں جڑتا تھاوہ توڑ تاڑ کے رکھتی تھی
کسی بھی مسئلے کا حل نہیں تھااس کے پاس
بلا کی کند ذہن تھی مجھے حیرت میں ڈال رکھتی تھی
میں جب بھی تعلق جوڑنے کی بات کر تا تھا
وہ روکتی تھی مجھے کل پہ ٹال رکھتی تھی
وہ میرے زخموں کو کریدتی تھی اپنے ناخنوں سے
پھر اس رِستے زخموں پہ نمک چھڑ کا کے رکھتی تھی
وہ ابھرنے ہی نہی دیتی دکھ کے دریا سے مجھے
بمشکل میں نکلتا تھا وہ واپس اچھال رکھتی تھی
حسیناوں کو وہ بلائیں سمجھ کےروک لیتی تھی
وہ میرے چار سو تلواروں کی ڈھال رکھتی تھی
اک ایسی گرج کہ جان و دل دہل جائیں
اسکی منفرد ہنسی ہاتھی کی چنگاڑ کا سا کمال رکھتی تھی
اسے آسانیاں میری کہاں گوارہ تھیں
وہ ہر وقت مجھے مشکل میں ڈال رکھتی تھی
بچھڑ کے اس سے میں بہت مزے میں ہوں
وہ پاس تھی تو میرا جیناحرام رکھتی تھی
وہ منتظر رہتی تھی کہ کب موسمِ گرما آئے
وہ سخت دھوپ میں مجھے کان پکڑوا کے کھڑا رکھتی تھی