میں آرزوئے دید کے کِس مرحلے میں ہوں
خود آئینہ ہوں یا میں کسی آئینے میں ہوں
رہبر نے کیا فریب دیئے ہیں مجھے نہ پوچھ
منزل پہ ہوں نہ اب میں کسی راستے میں ہوں
اِس دم نہیں ہے فرق ، صبا و سموم میں
اِحساس کے لطیف سے اِک دائرے میں ہوں
تیرے قریب رہ کے بھی تھا تجھ سے بے خبر
تجھ سے بچھڑ کے بھی میں تیرے رابطے میں ہوں
ہر شخص پوچھتا ہے میرا نام کِس لیے
تیری گلی میں آ کے عجب مخمصے میں ہوں
میں کِس طرح بیاں کروں حرفِ مدعا
جِس مرحلے میں کل تھا اُسی مرحلے میں ہوں
واصف مجھے ازل سے ملی منزلِ ابد
ہر دور پر محیط ہوں جِس زاویے میں ہوں