میری تنہائی میں آجاؤ دو پل میں اداس بہت ہوں
تم بن میری جان آج کل میں اداس بہت ہوں
مجھے روک نہ اے ساقی جام پینے دے جی بھر کے
اپنے ہاتھوں سے مجھے ہونے دے قتل میں اداس بہت ہوں
اتنی جلدی نہ منہ پھیر کے چندا تو چھپ جا
کچھ دور تو میرے ساتھ چل میں اداس بہت ہوں
تجھے اپنی خوشیوں کی پڑی ہے یہاں میری جان پہ بنی ہے
تجھے یہ احساس ہی نہیں پاگل میں اداس بہت ہوں
اور تو سب ٹھیک ہے لیکن اک بات ضروری ہے
اسے جا کے کہنا اے بادل میں اداس بہت ہوں
امتیاز وہ جتنا بھی خفا ہوگا آجائے گا مجھ سے ملنے
اگر اس نے سن لی میری غزل میں اداس بہت ہوں