میں اس بستی کا باسی ہوں، جہاں احساس کا دکھ ہے
کہیں بہتات و ناشکری، کہیں افلاس کا دکھ ہے
نجانے کب ختم ہو گی، یہاں رشتوں کی بے قدری
کوئی بہو نہیں اچھی، کسی کو ساس کا دکھ ہے
دیا ہر بار پھر موقع، ملا ہر بار ہی دھوکا
جس سے ہر بار ہوں ٹوٹا، اسی ارداس کا دکھ ہے
تقاضا وقت حاضر کا، پانی کو بچانا ہے
جس سے کل کو تڑپو گے، مجھے اس پیاس کا دکھ ہے
امیر شہر کے کتے، یہاں ملبوس پھرتے ہیں
غریب وقت کو حاوی، یہاں لباس کا دکھ ہے