میں اس کی آنکھ میں اپنا عکس ڈھونڈتا رہتا ہوں
اور وہ سارے شہر سے نظریں چرائے پھرتا ہے
ڈرتا ہے کہیں محبت اسے برباد نہ کر دے
اپنے ہر احساس کو وہ سینے میں دبائے پھرتا ہے
عجب درد پنہاں ہے اس کی آنکھوں کی چمک میں
چہرے وہ دھیمی سی مسکان سجائے پھرتا ہے
کیسے سمجھاؤں اسے محبت جرم نہیں ہوتی
وہ اس بات پہ ہر دلیل مٹائے پھرتا ہے
بے خیالی میں اک نام وہ لکھتا ہے بار بار
اک تصویر وہ آنکھوں میں لگائے پھرتا ہے
اس بہار کےرنگوں میں کہیں کھو نہ جائے
خزاں کے ذرد پتوں میں وہ خود کو چھپائے پھرتا ہے
دل کے نہاں خانوں میں چپھی بیٹھی ہے یہ محبت
اور وہ خود کو خود سے بھگائے پھرتا ہے