ہاں! میں اُجڑے دیار کی بیکَسی جیسا ہوں
درد میں دوبے ہوئے شخص کی ہنسی جیسا ہوں
بدنام ہو جاتے ہیں لوگ جسکی نسبت سے
میں اس میخانے کی مَے کشی جیسا ہوں
تماشائ بن کر لوگ جسے دیکھتے ہیں
لاچارگی میں کیئے خودکشی جیسا ہوں
نا مکمل خواہشیں احساس یہ دلاتی ہیں
میں اِک غریب کی بے بسی جیسا ہوں
شور برپا ہے میری ذاتِ خلوت میں مگر
کسی سبب کے تحت خاموشی جیسا ہوں
حُسینؔ ! غم کی تاریکی میرا وجود کیا مٹائے گی
میں ان میں پھیلتی ہوئ روشنی جیسا ہوں