میں انساں ہوں، اس دنیا میں ۔ ۔ ۔
Poet: طارق اقبال حاوی By: Tariq Iqbal Haavi, Lahoreمیں انساں ہوں، اس دنیا میں
سبھی مخلوقوں میں اشرف ہوں
جدت کے صلاحیت کے، سبھی گن مجھ میں بستے ہیں
ہر مسئلے سے نمٹنے کو، ذہن میں لاکھوں رستے ہیں
میں جو چاہوں بنا ڈالوں، میں جو چاہوں مٹا ڈالوں
چاہوں تو چاہتیں بانٹوں، چاہوں تو راحتیں بانٹوں
چاہوں تو نفرتیں بو دوں، یوں اکثر قدریں بھی کھو دوں
مگر میں بھول بیٹھا ہوں
میری محبت یا نفرت کا، اس ترقی و جدت کا
بڑا کتنا بھی قد ہے
مگر اس رب کی جانب سے
مقرر بھی تو اک حد ہے
آزمائشوں میں یا فکروں میں، وہ جب چاہے جکڑ ڈالے
وہ ڈھیلی چھوڑ کر رسی، جب چاہے پکڑ ڈالے
ہوا کچھ یوں اب بھی ہے، وبا جو چارسو ہے اب
بہت یہ جان لیوا ہے
صحیح اب وقت ہے شاید، کہ اپنی ذات سے نکلوں
اور ان احکام کو سمجھوں، کہ جن کو پورا کرنے کو
مجھے دنیا میں بھیجا تھا
مجھے معالج بتاتے ہیں، کہ اب قرنطینہ لازم ہے
بیماری سے بچنے کو، یہی قرینہ لازم ہے
سمجھنا چاہوں اگر میں تو، مجھے خلوت سکھائے گی
خدا اور بندگی کیا ہے؟؟؟
یہ راز زندگی کیا ہے؟؟؟
کس بات کی آخر جلدی ہے کس بات کا پھر یہ رونا ہے
دنیا کے مصائب جھیلنے کو مالک نے بنایا ہے جیون
آرام بھلا پھر کاہے کا پھر کاہے یہ سونا ہے
بے مقصد جینا کہتے ہیں حیوان کے جیسا جینے کو
انساں کے لیے تو یہ جیون یارو پر خار بچھونا ہے
دشوار سہی رستہ لیکن چلنا ہے ہمیں منزل کی طرف
منزل کی طلب میں عاکفؔ جی کچھ پانا ہے کچھ کھونا ہے






