میں اور تو اک ساگر کے دو کنارے ہیں
جن سے گزرنے والے رستے ہزاروں ہیں
وہ لمحے وہ باتیں تو گبھی نا بھول پائے گا
چاہے لاکھہ تیرے پاس نے بہانے ہیں
یہ حسن اتفاق ہے یا تیری کوئی نئ چال
جو تیرے کوچے سے میری خوشبوئیں آتی ہیں
تو پھولوں کی بات نا کر کانٹوں کا ذکر کر
تیرے لب تو صرف شعلے اگلنے والے ہیں
کبھی میرے درد کا سارا کرب تو سہتا تھا
اب تو میرے چاروں طرف ویرانے ہیں
تجھے بھی شوق بہت ہے بت پرستی کا
اب تیرے ہی مندر کے نئے پجاری ہیں
لوگ کس بھیڑ کا ذکر کرتے ہیں اب
یہاں تو ہم ہیں ہمای تنہائیاں ہیں
یں اب بھی انا پر ہوں قائم شام
چاھے اب سب روٹھنے والے ہیں