میں اور میرا شہر محبت
تاریکی کی چادراوڑھے
روشنی کی آہٹ پر کان لگائے کب سے بیٹھے ہیں
گھوڑوں کی ٹاپوں کو سُنتے رہتے ہیں
حد سماعت سے آگے جانے والی آوازوں کے ریشم سے
اپنی ردائے سیاہ پہ تارے کاڑھتے رہتے ہیں
انگشتانے اِک اِک کر کے چھلنی ہونے کو آئے
اب باری انگشتِ شہادت کی آنے والی ہے
صبح سے پہلے وہ کٹنے سے بچ جائے تو