رات کا اک پل مجھے کہیں دور
بہت دور لے گیا
آنکھوں میں نیند نہ پھر بھی
کھلی آنکھوں میں خواب سجائے میں نے
ایک پھول کھلا تھا کہیں
شاخ پر لگا جیسے بوجھ دہراہے کوئی
وہ شاخ جھکی تو جھکتی ہی گئی
نا جانے محبت کا نشہ تھا یا مجبوری اس کی
پاس ہی بھنورا کہیں سے اک چلا آیا
پل کے لئے ٹھہرا پھول سے آنھ ملائی
چل دیا اک طرف
ایسے میں رات کا پہر بڑھنے لگا
کہیں سے ایک جگنو آ بیھٹا ہمدرد بن کر
پھول پر پڑے تھے، شبنم کے چند قطرے
آنسو سمجھ کر چن لئے اس نے
پھر سنبھلنے کی دعا دی اس کو
یہ بھی ایک انداز تھا محبت
پھر رات کا پہر بھی دھیرے دھیرے بڑھتا گیا
صبح کی ہوا ساتھ ہی روشنی کی کرن لائی
پھول کا کیا ہوا
شبنم ہوئی رخصت سورج کی کرن کے ساتھ
پھول نہ بے وفائی سہہ پایا ان رشتوں کی
پھر بکھر گیا اس ہوا کے سنگ سنگ
میں نا دیکھ پائی تماشہ اس جدائی کا
پلٹی جو میں تو میرے سنگ بھی کوئی نہ تھا
نہ نیند میری نہ خواب میرا
بس میں اور وہی میری تنہائی تھی