میں اِک خیال بن کے جیتا ہوں ۔۔۔
کبھی ماضی تو کبھی حال بن کے جیتا ہوں
میں ہر زَبان پر کمال بن کے جیتا ہوں
میرے اَصرافِ بسر کی مِتاع فنا و بقا
سکوںمیں ہوں تو اعتدال بن کے جیتا ہوں
ہوں با حیات بَجز قتل ہو گیا میرا
تیری نظر میں اِک سوال بن کے جیتا ہوں
یہ اور بات میرا نام مثالوں میں نہیں
میں خود تہی تو اِک مثال بن کے جیتا ہوں
کبھی لمحہ تو کبھی سال بن کے جیتا ہوں
میں اِک خیال بن کے جیتا ہوں
میں اِک خیال بن کے جیتا ہوں