یہ شہر، یہ گلیاں، یہ در چھوڑ جاؤں گی
اک روز میں بھی سب ہنر چھوڑ جاؤں گی
دھوپوں میں جل رہی ہوں مگر گِلہ نہیں
اک روز چہرے سے یہ نور چھوڑ جاؤں گی
آنکھوں میں جو چمک ہے وہ بجھنے والی ہے
خوابوں کی ساری رہگزر چھوڑ جاؤں گی
پہچان میری راکھ میں ڈھونڈنے نہ آنا
میں درد کی ہر ایک لہر چھوڑ جاؤں گی
ساگر سے کہہ دو موجوں کو تھام کر رکھے "نساک"
میں اشک سا کوئی گہر چھوڑ جاؤں گی.