میں اک کانچ کی گڑیا
ہوائے دہر کی زد میں کبھی ٹوٹی کبھی بکھری
میں وقت کی آنکھ میں ٹھہرا ہوا
بے رنگ سا آنسو
کہ جس کی منزلیں زمین کی پہنائیاں ٹھہری
میں آنگن کے درو دیوار پر ٹھہرا
اک خزاں زدہ موسم
جسے کوئ دیکھنا چاہے نہ خواہش ہو چھونے کی
میں اک کانچ کی گڑیا
میں بے رنگ سا آنسو
میں خزاں زدہ موسم
مگر، رکو ، سنو ، دیکھو
میں انسان بھی تو ہوں
میرے احساس کے زخمی بدن کو نرم لفظوں کا
مرہم دو
میرے بے رنگ ہاتھوں کو کبھی تو کوئ رنگ دے دو
محبت نہ سہی
مگر اتنا ہی کردو تم
فقط اعتبار کا اک لازوال پل مجھے دے دو