میں اکثر سوچا کرتا ہوں
Poet: H Hamza By: H Hamza, gujranwalaمیں اکثر سوچا کرتا ہوں
کچھ لوگ جو اکثر ملتے ہیں
وہ اپنے سے بھی لگتے ہیں
پر ہیں پھر بھی انجان بہت
پھر بار بار کیوں ملتے ہیں
میں اکثرسوچا کرتا ہوں
جیسے گزری ہوا کا جھونکا ہو
جیسے ماضی کی کچھ یادیں ہوں
جیسے شجر کے ایسے پتے ہوں
جو پت جھڑ میں گر جاتے ہیں
پھر یاد ہمیں کیوں آتے ہیں
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
جیسے موسم ہو اک پیارا سا
اور دسمبر کی کچھ بوندیں ہوں
ان بوندوں میں کچھ یادیں
جو ساری رات مچلتی ہوں
کچھ لوگ پھر کیوں یاد آتے ہیں
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
یادوں کے تپتے صحرا میں
کیوں چھاؤں ان ہی کی لگتی ہے
تھا محض خیال اپنے دل کا
اس چھاؤں میں بھی تھی دھوپ کڑک
دل پھر بھی انہیں کیوں چاہتا ہے
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
اک گلشن سے جو گزر ہوا
گلاب تھے کچھ بکھرے بکھرے
اور مہک جو ان کی ایسی تھی
کچھ بیتے پل پھر یاد آئے
کیوں یاد وہ لمحے آئے تھے
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
کچھ صبح کی ٹھنڈی فضا بھی تھی
کچھ پتوں پہ جو شبنم تھی
وہ موتی تھے دل گیر بہت
ست رنگی ان میں سورج کی
پھر کوئی ہمیں کیوں یاد آیا
میں اکثر سوچا کرتا ہوں
جو چاند پہ اک دن نظر پڑی
اس چاند پہ اس کا عکس ملا
پر پلٹ کے جب دیکھا ہم نے
وہ چاند کا اپنا نور ہی تھا
پھر وہ نظر کیوں آئے تھے
میں اکثرسوچا کرتا ہوں
کیوں کوئی خفا ہو جاتا ہے
کیوں کیسے مننا پڑتا ہے
کچھ لوگ کیوں اچھے لگتے ہیں
پر حمزہ وہ اپنے ہیں ہوتے
پھر یاد ہمیں کیوں آتے ہیں
میں اکثرسوچا کرتا ہوں
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






