میں اکیلا سا تنہا سا رہ گیا ہوں
ویراں گلی میں کوئی پتھر سا رہ گیا ہوں
ڈھونڈ مجھ کو اب فقط میخانوں میں
سہرامیں انجان سا رہ گیا ہوں
جب سے بیچا ہے اٗس نے میری وفا کو
بے سروسامان سا رہ گیا ہوں
کون روکے گا مجھ کو بربادی سے
سستی شراب سا رہ گیا ہوں
دل دھرکنے پہ بھی وہ یاد آتا ہے
فقط احتجاج سا رہ گیا ہوں
بڑی مشکل سے رکھا ہےقفس میں دل کو
ظالم صیاد سا رہ گیا ہوں
دل میں ترپ ہے اور آنکھ میں آنسوں
غم کا شہکار سا رہ گیا ہوں
آ دیکھ کبھی حالت میری
ویراں مزار سا رہ گیا ہوں
چلو چھورو،کہو اپنی ،کیسا دن بیتا؟
میں تو شبِ فراق سا رہ گیا ہوں
ٹوٹا ہوں اس قدر آصف
پُرانےمکان سا رہ گیا ہوں