بات کچھ تو بنے نبھانے کی
وہ صدا دے مجھے کوئی لوٹ آنے کی
میں بھی تمہاری طرح لاتعلق ہو جاؤں
یا دعا دو مجھے مر جانے کی
بدل ڈالو اب یہ شیواہ اپن
اچھی نہیں عادت یہ رولانے کی.
کچھ تو ضبط بھی لازم ہے مگر
مجھ میں سقط نہیں تمیں بھلانے کی
خود غرض بلا کی ہے مناۓ گی کہاں
زندگی کی عادت نہیں منانے کی
اس راہ پہ ذات بکھر جاتی ہے
محبت میں چال نہیں بچانے کی
اک عمر طلب ء باد ء صبا میں گزری
ہوا چلی تو میری لو بجھانے کی
کچھ تو فیصلہ اب کرو عنبر
کوئی سانس نہیں بچی اب جلانے کی