خیال چیختے ہیں، خواہیشیں ترستی ہیں
کہاں ہے، جس کے لیئے دھڑکنیں دھڑکتی ہیں
ترے بدن کے جھلکتے ہی دوڑ جاتی تھی
اس ایک لہر کو اب تک رگیں ترستی ہیں
وہ گرم سانس، جواں لمس، تیز تیز مہک
کہ بسترے پہ پڑی سلوٹیں ترستی ہیں
عمارتوں نے ہر اک سمت سراٹھائے ہیں
کہاں ہے پیاسی زمیں، بارشیں ترستی ہیں
وہ رنگ جس کے لیئے شہر انتظار میں ہے
وہ عالیہ جس کے لیئے چلمنیں ترستی ہیں