میں تمہارے فسانے میں داخل ہوئی
شام کی ملگجی روشنی
راستوں کے کناروں پہ پھیلی ہوئی تھی
فضا، زندگی کی اُداسی سے لبریز اور زرد تھی
دُور تک ایک نیلے تسلسل میں بہتی ہوئی نم ہَوا
سرد تھی
آسماں نے زمیں کی طرف سر جُھکایا نہیں تھا
ابھی اختِرشام نے اپنا چہرہ دِکھایا نہیں تھا
کہ جب میں نے بیکار دنیا کے ہنگام سے اپنا دامن چُھڑایا
دلِ مضطرب کو دِلاسا دیا
آگے جانے کی جلدی میں
جنگل پہاڑ اور دریا
کسی کو پلٹ کر نہ دیکھا
کہیں وقت کی ابتدائی حدوں پر کھڑے
اپنے پتھریلے ماضی کی جانب
بس اک الوداعی اشارہ کیا
خواب کا ہاتھ تھاما
نئے عزم سے سر کو اُونچا کیا
اور تمہارے فسانے میں داخل ہوئی
شام کی ملگجی روشنی راستوں کے کناروں پہ
اُس پَل تھمی رہ گئی
زندگی کی اُداسی سے لبریز ساری فضا
دم بخود
اور ہَوا اپنے پاؤں پہ جیسے جمی رہ گئی