رشتوں پر سے
اعتبار ُاٹھ گیا ہے
جو چل رہا تھا ساتھ منزل کی جانب
بس اک ُاسی اپنے کا
ساتھ چھوٹ گیا ہے
ہوایئں کس قدر تیز چل رہی ہیں لکی
کہ نا چاہتے ہوئے بھی
چراغ بھج گیا ہے
وہ کتنی حسین تھی شام
کہ چاند پورا تھا فلک پے
لیکن جب خود پر نظر پڑی تو
تنہایوں سے میرا دل دڑ گیا ہے
میں تو عروج تھی ُاس کے لیے لکی
پھر وہ شخص مجھے
زوال کیسے کر گیا ہے
ُاس کی پیار بھری باتیں تو
مجھ میں سماء گئی ہیں
پھر نجانے وہ اپنی ہی
کہی باتوں سے مکر کیسے گیا ہے
وہ ایسا تو نہیں تھا لکی
پھر وہ میرے ساتھ ایسا کیوں کر گیا ہے