میں خالی ہاتھ تھی دیکھا نہیں، ہے کیا پہنا
جو لایا پھول نہیں لائے گا وہ کیا گہنا
میرے بلانے پہ آواز بھی نہ پہچانی
گلے شکوؤں کا پھر اپنے لبوں سے کیا کہنا
جسے یہ شک ہے کہ نظریں بدل گئیں میری
پھر اُس کے سامنے اِن آنسوؤں کا کیا بہنا
جو لے قدم بھی نہ سماج کہیں اٹھ جائے
تو میرے واسطے اُس نے زمانہ کیا سہنا
مکیں کا سوچے بنا پھینکتا ہے دِل وہ ریاض
نہیں جو حقِ ملکیت ، تو گھر میں کیا رہنا