ایک شخص کی خاطر جبر کر بیٹھا ہوں
میں زندگی کو اِدھر اُدھر کر بیٹھا ہوں
اس لمحے پے تو قیامت برپہ کرنی تھی
مگر نہ جانے کیوں اب صبر کر بیٹھا ہوں
عہد تھا شدتِ اذیتِ فراق سے نہ روئوں گا
عہد ٹوٹ گیا جاناں چشم تر کر بیٹھا ہوں
وہ نفیس مزاجی چھین لی زمانے نے
آ کے دیکھ اب دل کو پتھر کر بیٹھا ہوں
بھرمِ عہد کی خاطر اس محفل میں
ہاں جان بیٹھا ہوں مر کر بیٹھا ہوں
تجھ جیسے وعدہ شکن پے اعتبار
نہیں کرنا چاہیے مگر کر بیٹھا ہوں
میری اب خواہشِ مختصر وصل نہیں
اسی لئے وصل کو ہجر کر بیٹھا ہوں